واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

 حضرت حجتہ اللہ محمد نقشبند

رحمتہ اللہ علیہ

آپ حضرت خواجہ محمد معصوم   رحمتہ  اللہ  علیہ   کے دوسرے صاحبزادے ہیں۔ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   کی ولادت باسعادت ۷ رمضان المبارک ۱۰۳۴ ہجری بروز جمعتہ المبارک  ہوئی۔ امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی    رحمتہ  اللہ  علیہ   نے آخری وقت میں حضرت خواجہ معصوم سے ارشاد فرمایا تھا کہ اس سال میرے وصال کے بعد تمہارے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوگا جو قرب الٰہی کے کمالات میں میرے برابر ہوگا۔ آپ نے  ظاہری و باطنی تعلیم اپنے والد ماجد حضرت خواجہ محمد معصوم   رحمتہ  اللہ  علیہ   سے حاصل کی جس کی وجہ سے تھوڑے ہی عرصے میں وہ تمام اسرار آپ پر منکشف ہوگئے جن کی نسبت حضرت خواجہ معصوم  رحمتہ  اللہ  علیہ   فرمارتے تھے کہ یہ حیطہ درکِ عقل و تصویرِخیال سے باہر ہیں۔ 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

حضرت قیوم ثانی خواجہ محمد معصوم  رحمتہ  اللہ  علیہ   نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے مجھ کو خلعتِ قیومیت سے سرفراز فرمایا۔ الحمداللہ! وہ خلعت تم کو بھی عطا ہو۔ مبارک ہو ۔ اس لئے آپ کو قیوم ثالث کہتے ہیں۔

قیومیت کے نویں سال آپ نے حج بیت اللہ کا ارادہ کیا تو اعلان فرمایا کہ جو شخص چاہے ہمارے ساتھ حج پر چلے اور زاد راہ کی کچھ فکر نہ کرے۔چنانچہ آپ کے ساتھ پچیس ہزار آدمی  جن میں چار سو بڑے علمائے مشائخ بھی تھے ، سعادت حج حاصل کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔جب اورنگ زیب عالمگیر نے آپ کی حج روانگی کی خبر سنی تو دہلی سے تیرہ میل باہر آکر آپ کا شاہانہ استقبال کیا اور تجدید بیعت کی۔پھر آپ دہلی سے ہوتے ہوئے حجاز مقدس کو روانہ ہوئے۔دہلی میں آپ کی خدمت میں بطور ہدیہ اس قدر زروجواہر ، نقد اور جنس اکٹھا ہوئے کہ اٹھانا مشکل تھا۔کہتے ہیں کہ ساحل سمندر تک پہنچتے  پہنچتے آپ کے ہمراہیوں کی تعداد ستائیس ہزار ہو چکی تھی۔دوران سفر آپ کو الہام ہوا کہ تمہارے  مریدوں کے علاوہ سات ہزار آدمی جن پر دوزخ کی آگ واجب تھی تمہاری سفارش سے بہشت میں داخل ہو نگے۔

ایک دفعہ سر ہند میں بارش نہ ہوئی۔والی شہر بہت سے لوگوں  کو ساتھ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا  اور بارش کے لیے دعا کی درخواست کی ۔ آپ نے فرمایا کہ پچیس روز تک بارش نہیں ہو گی۔چنانچہ آپ کا فرمان سچ ثابت ہوا  اور چھبیسویں روز موسلادار بارش ہوئی۔

آپ کا ہر عمل، ہر فعل اور ہر قدم سنت نبوی کے مطابق تھا۔رات کے تیسرے حصے میں بیدار ہوتےاور بارہ رکعت نماز تہجد ادا فرماتے۔ نماز تہجد میں سورۃیسین پڑھا کرتےتھے۔  نماز فجرباجماعت ادا کرتے پھر حلقہ ذکرو مراقبہ کرتے۔اس سے فارغ ہو کر چار رکعت  نمازاشراق ادا  کرتے ۔ پھر دوستوںکو اپنی توجہ سے نوازتے۔ دن کا تھوڑاحصہ گزرنے کے بعد  درونِ خانہ تشریف لے جاتے اور دوپہر کا کھانا بمعہ اہل و عیال تناول فرماتے پھر قیلولہ کے بعد چار رکعت نمازفی الزوال ادافرماتے۔ نماز ظہر ادا  فرمانے کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کرتے اور تفسیر بیان کرتے۔ نماز عصر کے بعد فقہ، حدیث اور مکتوبات امام ربانی کا درس دیا کرتے۔ نماز مغرب کے بعد صلٰوۃ اوابین ادا فرماتے اور وظائف ادا کرنے کے بعد دوستوں کوتوجہ دیتے ۔ بعد از نماز عشاء گھر تشریف لے جاتے اور رات کا کھانا کھانے کے آرام فرماتے۔

آپ نےاس دارفانی سےبروزجمعتہ المبارک ۲۹ محرم الحرام ۱۱۱۴ہجری کو رخصت ہوئے۔آپ نے ۸۱ برس کی عمر پائی۔آپ اپنے والد بزرگ وار کے مقبرہ میں مدفون ہوئے۔